پاناما لیکس: وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ
پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا کے بہت سے رہنما پریشانی کا شکار ہیں
پاکستان کی قومی
اسمبلی میں جمعے کو ہونے والے اجلاس میں پیپلز پارٹی نے پاناما لیکس کے
معاملے پر وزیر اعظم سے مستعفی جبکہ تحریک انصاف نے موجودہ چیف جسٹس کی
سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان پیپلز
پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاناما لیکس
کی خفیہ دستاویزات میں آف شور کمپنیز میں وزیر اعظم کے بچوں کا نام آنے کے
بعد اب نواز شریف کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کہ وہ اس عہدے پر فائز
رہیں۔‘انھوں نے کہا کہ اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ نواز شریف اسی وقت وزیر اعظم کے عہدے سے الگ ہوکر خود کو احتساب کے لیے پیش کردیتے۔
پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک بااختیار کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کمیشن حزب مخالف کی جماعتوں کو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاناما لیکس کے بارے میں قومی احتساب بیورو، الیکشن کمیشن، ایف بی آر اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ کیوں خاموش ہے۔؟ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کی جماعتیں کسی طور پر بھی وزیر اعظم کے اہلخانہ کی پگڑی اُچھالنا نہیں چاہتیں لیکن ہمارا مطالبہ بھی جائز ہے کہ اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی آصف حسنین کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اب آئین کے ارٹیکل 62 اور63 کے بارے میں کیوں خاموش ہے۔؟ اُنھوں نے کہا کہ آئین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جو شخص صادق اور امین نہ ہو وہ کسی طور پر وزیر اعظم بننا تو کیا اسمبلی کا رکن تک نہیں بن سکتا۔
انھوں نے کہا کہ اگر حزب مخالف کی جماعتوں کو حکومت کی جانب سے بنائے گئے کمیشن پر اعتراض ہے تو پھر سپریم کورٹ کے دروازے کھلے ہیں۔
وزیر اطلاعات کی تقریر کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی ارکان اسمبلی کے دوران نوک جھونک بھی ہوئی اور غیر پارلیمانی الفاظ بھی استعمال کیے گئے جسے قومی اسمبلی کے سپیکر نے کارروائی سے ہدف کروا دیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اب 12 اپریل کو ہوگا۔